Orhan

Add To collaction

محبت نہیں عشق یے

محبت نہیں عشق یے
از قلم این این ایم
قسط نمبر16

 حدیب وہ ٹھیک ہے
 وہ اپنی زندگی میں خوش ہے میں تو کہتی ہوں تم اسے بھول جاو  کہیں ایسا نا ہو تمہاری یہ محبت اس کی شادی شدہ زندگی میں روکاوٹ بن جائے تم سمجھ رہے ہو نا حدیب  طاہرہ بیگم نے سوال کیا ماں میں اسے نہیں بھول سکتا وہ خون کی طرح میری رگوں میں دوڑتی ہے لیکن اگر میرا یہاں رہنا اس کے لیئے ٹھیک نہیں تو میں یہاں سے چلا جاؤں گا میں اب انگلینڈ والا بزنس سنبھالوں گا میں آج ہی ٹکٹ بک کروا  لیتا ہوں حدیب نے اپنی ماں کے کانوں پر بم پھوڑے تھے یہ کیا کہہ رہے ہو تم مجھے چھوڑ کر نہیں جاؤ گے طاہرہ بیگم نے اسے روکنے کی کوشش کی تھی ماں میں یہاں رہا تو مر جاؤں  گا مجھے مت مت روکیں پلیز پلیز پلیز حدیب نے روتے ہوئے کہا اور اپنی ماں  کے گلے لگ گیا ماں نے دل میں اپنے بیٹے  کے لیئےدعا کی تھی 
=0=======
خیر سے جاؤ اور وہاں پہنچتے ہی ہمیں خبر کرنا  طاہرہ بیگم نے اپنے بیٹے کے سر پر ہاتھ  پھیرتے ہوئے کہا تھا ٹھیک ہے ماں میں اب چلتا ہو حدیب نے اپنی ماں سے اجازت لینی چاہی بیٹا اپنے باپ اور چاچو سے تو مل لو طاہرہ بیگم نے اسے یاد دلاتے ہوئے کہا  آپ کو کیا  لگتا ہےوہ مجھ سے ملنا چاہیں گے حدیب نے غم سے مسکراتے ہوئے کہا چلو اپنے باپ سے نہیں تو چاچو سے تو مل لو انھوں نے تو کچھ نہیں کہا طاہرہ بیگم نے اسے سمجھایا کچھ کہتے نہیں  اس کا کیا مطلب ہے وہ ناراض نہیں مجھ سے ان کی آنکھیں مجھ سے شکایت کرتی ہیں اور  میں وہ برداشت نہیں کرسکتا میں  جارہا ہوں اپنا اور گھر والوں کا خیال  رکھئیے گاحدیب یہ کہتا ہوا گھر سے نکل گیا
==========
آپ اتنی دیر سے کیوں آئے میں کب سے آپکا انتظار کر رہی ہوں پہلے تو کبھی  اتنی دیر نہیں کی حسیب  آج بہت لیٹ گھر آیا تو ماہروش نے سوال کیا تمہیں کیا مسلہ ہے میں جب بھی او ں میری مرضی ہے تم کون ہوتی ہو مجھ سے پوچھنے والی  حسیب نے غصے سے کہا اور شاید حسیب نے درنک بھی کر رکھی تھی ماہروش کو پہلے والا حسیب نظر آیا وہ پیچھےہٹی تھی ڈر کے مارے اور بھاگ کر کمرے میں گھس گئی اور کنڈی لگا لی کیونکہ پہلے بھی حسیب نے اسی حالت میں اسے خوب مارا تھا  حسیب اسے پکارتا رہا مگر وہ  باہر نہیں آئی 
==========  
ماہروش صبح کمرے سے باہر آئی تو سامنے حسیب کو صوفے  سویا ہوا پایا ماہروش کو کچھ اطمینان ہوا تھا اور وہ ناشتہ بنانے کچن میں چلی گئی واپس آئی تو حسیب صوفے پر نہیں تھا  یہ کہاں چلے گئے ماہروش اسے ڈھونڈتے ہو کمرے میں آئی تھی واشروم سے پانی گر نے کی آواز آ رہی تھی اور کچھ دیر بعد وہ باہر آ یا  ماہروش پر ایک نظر ڈال کر وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر بال بنانے لگا آپ ناشتہ کر لیں میں ابھی  لاتی ہوں ماہروش نے خود کو نارمل کرتے ہوئے کہا نہیں کرنا مجھے ناشتہ  زور دار آواز  سے ماہروش ڈر گئی حسیب یہ کہتا ہوا چلا گیا اور وہ و ہیں کھڑی روتی رہ گئی 
========0=00
مجھے فاطمہ کے لیئے کچھ چیزیں لانی ہیں جب صاحب آئیں تو انھیں بتا دینا ماہروش کام والی سے یہ کہتی اپنی بیٹی فاطمہ کو اٹھائے ڈرائیور کے ہمراہ گھر سے مال کی طرف روانہ ہوگئی   وہ ابھی چیزیں خرید رہی تھی اسکی نظر حسیب  پر پڑی   وہ وہاں کسی لڑکی کے ساتھ   تھا یہ دیکھ کر  ماہروش کے پاؤں تلے زمین کھسک گئی حسیب بھی وہاں شاپنگ کر رہا تھا اور ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا

   1
0 Comments